Kya main musalman hon? by sayeda Taisha binte shabir

Kya main musalman hon? by sayeda Taisha binte shabir

کیا میں مسلمان ہوں؟

مصنفہ: سیدہ تائشہ بنت شبیر

انتساب:

اس افسانے کو میں اُن کے نام کرتی ہوں،جو ہر روز خود کو “اچھا مسلمان” سمجھتے ہیں۔

صرف اس لیے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، مگر جن کی آنکھیں اپنے ہی گھر میں

کسی نبیل کو تڑپتا نہیں دیکھتیں۔

جن کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ دین کا پہلا سبق محبت ہے، اور پہلا امتحان رشتہ۔

اور اُن کے لیے بھی، جنہوں نے کبھی تنہائی میں بیٹھ کر خود سے صرف ایک سادہ سوال نہیں پوچھا کہ  “اگر میرا اسلام میرے سب سے قریب انسان کو دکھ دے رہا ہے تو کیا میں واقعی مسلمان ہوں؟”

یہ افسانہ تمہارے لیے ہے، اے خاموش قاری!

جس کا دل ابھی بھی زندہ ہے۔ بس ایک دھچکا چاہیے۔ واپس رب کی طرف پلٹنے کے لیے۔

پیش لفظ:

کبھی کبھی قلم سوال کرتا ہے اور جواب قاری کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو ہوتے ہیں۔

“کیا میں مسلمان ہوں؟”

یہ سوال میں نے ایک کردار سے نہیں،خود سے پوچھا تھا۔ اور جب پوچھا تو اس سوال نے میرا سینہ چیر کر رکھ دیا۔کیونکہ مسلمان ہونا صرف نماز پڑھنے، تسبیح کرنے، یا مذہبی پوسٹ لگانے کا نام نہیں، بلکہ مسلمان ہونا ضمیر کے بیدار ہونے کا دوسرا نام ہے۔میں نے بہت لوگوں کو دیکھا جو قرآن پڑھتے ہیں،مگر قرآن ان کے اندر نہیں اترتا۔میں نے ایسے باپ دیکھے جو مسجد میں صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے ہیں، مگر بیٹے کی آنکھ میں نظر ڈالنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ایسے بھائی، ایسے اساتذہ، ایسے لوگ جو دین کے مبلغ تو ہیں، مگر رشتے کے احساس سے محروم۔یہ افسانہ دو کرداروں کی کہانی ہے۔ نبیل اور زوہیب۔

ایک خاموش، نادیدہ، معصوم۔دوسرا شہرت کا مسافر، لفظوں کا استاد،مگر دل کا ناآشنا۔

یہ کہانی ان تمام “نبیل جیسے لڑکوں” کے لیے ہےجو گھروں میں، اسکولوں میں، اور دلوں میں نظرانداز کیے جاتے ہیں۔

جن کے لب پر کبھی شکایت نہیں ہوتی،مگر آنکھوں میں بس ایک سوال ہوتا ہے۔

“کیا مجھے بھی اللہ دیکھتا ہے؟”

اور یہ کہانی اُن “زوہیب جیسے لڑکوں” کے لیے بھی ہے، جو دوسروں کو رب سے جوڑنے کے دعوے تو کرتے ہیں، مگر خود اپنے قریب ترین انسان کو نظرانداز کر چکے ہوتے ہیں۔اس تحریر میں میں نے کوئی انقلاب نہیں لانا چاہا۔بس ایک آئینہ رکھ دیا ہے۔یہ افسانہ دل کو توڑتا ہے، پھر اسے قرآن کے پانی سے دھوتا ہے،اور آخر میں سجدے کی مٹی میں دفن کر دیتا ہے۔جہاں سے نئی زندگی جنم لیتی ہے۔یہ تحریر ان لوگوں کے لیے ہےجو شاید دین کے لبادے میں خود کو کامل سمجھ بیٹھے ہیں، مگر اپنے آس پاس کے لوگوں کی خاموش چیخیں سننے سے قاصر ہیں۔یہ ان گھروں کے لیے ہےجہاں اذان تو ہوتی ہے،مگر رشتوں کا احترام نہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ میرے، آپ کے، اور ہم سب کے لیے ہے۔جو زبان سے کلمہ پڑھ کر “مسلمان” تو بن گئے،مگر دل سے “انسان” ہونا بھول گئے۔

اس کہانی کو پڑھیں نہیں، محسوس کریں،اس کے سوال کو اپنائیں کہ “کیا میں مسلمان ہوں؟”کیونکہ اگر یہ سوال آپ کے دل کو چبھے، اور آنکھ کو نم کرے تو سمجھ لیں کہ آپ کا سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے (آمین) 

فی امان اللہ! 

خوش رہیں!

~سیدہ تائشہ بنت شبیر 

“السلام علیکم دوستو…آج کی ویڈیو میں میں آپ کو بتاؤں گا کہ کامیاب انسان بننے کے لیے کن تین باتوں کو زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔نماز، وقت کی پابندی، اور نیت کی صفائی۔”

زوہیب عزیر کی آواز اسکرین پر گونج رہی تھی،پس منظر میں سورۃ العصر کی آیات چل رہی تھیں،کمرے میں soft lights، پیچھے سفید پردہ،چہرے پر مہذب مسکراہٹ،آنکھوں میں ٹھہراؤ،اور زبان سے پھسلتی دعائیں، استعارے، اور “ان شاء اللہ” جیسے اسلامی لبادے۔

یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک۔ہر جگہ صرف “زوہیب عزیر”وہ نوجوان جو لاکھوں کا رول ماڈل تھا۔

لیکن… حقیقت؟

زوہیب نے جب ویڈیو بند کی،تو گہری سانس لی، موبائل ایک طرف رکھا،اور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

آئینہ جس کے سامنے لاکھوں لوگ خود کو بدلنے کا عزم کرتے تھے، آج خود زوہیب کو سوالیہ نگاہوں سے تک رہا تھا۔

اس نے اپنے چہرے کو دیکھا،داڑھی درست کی، مسکراہٹ دہرائی،مگر اندر کی آواز اب دبنے سے انکاری تھی۔

“تم نے آج پھر سچ نہیں بولا۔ تو آج پھر ویسا نہیں جیا جیسا کہ تو نے کہا۔”

“بس ابھی نہیں۔ کل سے۔ کل سے سب بدل دوں گا۔” زوہیب نے آنکھیں بند کیں، اور دھیرے سے زیرِ لب بولا۔

“زوہیب! کھانے پر آجاؤ، نبیل تم سے کب سے پوچھ رہا ہے۔”

امی کی آواز دروازے کے پار سے آئی۔زوہیب نے ٹھنڈی سانس لی۔

“امی! کہہ دیں، میرے پاس وقت نہیں ہے۔”

دروازے کے پیچھے ایک ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی، اور پھر خاموشی۔

زوہیب کو معلوم تھا، یہ نبیل تھا۔ اُس کا چھوٹا بھائی۔

بےحد خاموش، دھیمے بولنے والا، سادہ، نرمی سے مسکراتا ہوا نبیل۔ دماغی طور پر کمزور۔

مگر جذبات میں شاید سب سے مضبوط۔

وہ روز پوچھتا تھا کہ بھائی! آپ کی ویڈیو میں ایک دن مجھے بھی دکھائیں گے؟

زوہیب ہمیشہ ٹال دیتا، یا سیدھا جواب دیتا کہ یہ تمہارے لیے نہیں نبیل۔ تم سمجھو گے نہیں۔

نبیل مسکرا دیتا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک سوال جم جاتا جو کبھی زوہیب کی نظر سے چھپ نہیں سکتا تھا۔

شام کو زوہیب نے انسٹاگرام پر اسٹوری لگائی تھی

پوسٹ پر دھڑا دھڑ لائکس، کمنٹس، ری پوسٹس۔

کسی نے کہا. زوہیب بھائی آپ ولی اللہ لگتے ہیں۔

کسی نے کہا۔ آپ کے الفاظ میرے آنسو بن جاتے ہیں۔

“کاش تم میری خاموشیاں سن سکتے تو کبھی ولی نہ کہتے، شاید منافق پکارتے۔” زوہیب نے دل میں سوچا۔

زوہیب نے اپنی الماری میں قرآن رکھا تھا۔

زوہیب کی ماں روز پڑھتی تھیں۔

زوہیب نے برسوں سے اسے صرف ویڈیوز کے لیے کھولا تھا۔

جہاں تلاوت پس منظر میں چلتی تھی، اور سامنے زوہیب کی دنیا کی باتیں۔

مگر اس رات۔۔۔۔

جب نبیل خاموشی سے دروازے پر کھڑا تھا،

اور زوہیب نے پھر سے اسے جھڑک کر بھیجا تھا۔

اس نے جاتے ہوئے ایک جملہ بولا کہ

“بھائی آپ سب کو اللہ سے قریب کرتے ہو، پر مجھے کیوں دُور کرتے ہو؟”

زوہیب رک گیا۔ نبیل جا چکا تھا، مگر وہ جملہ

ابھی بھی دروازے پر کھڑا تھا۔

رات کو نیند نہ آئی۔

زوہیب نے پہلی بار موبائل کے بغیر سونا چاہا،

لیکن ضمیر جاگ رہا تھا۔

“اگر نبیل تمہارے بھائی کی بجائے کسی غریب شخص کا بیٹا ہوتا، تو کیا تو ویسے ہی نظرانداز کرتا؟ یا اسے سامنے بٹھا کر ویڈیو بناتا؟”

دل نے پہلی بار اس سے سوال کیا تھا۔

زوہیب کی پلکیں بھیگنے لگیں۔

وہ سب کو اللہ کے قریب بلاتا تھا، پر اپنے سب سے قریب انسان کو نظرانداز کرتا آیا تھا۔

وہ ساری رات نہ سو سکا

 صبح فجر کی اذان ہوئی۔ اس نے وضو کیا پھر جائے نماز بچھائی۔

زوہیب نے سجدہ کیا، مگر زبان خاموش تھی۔

کیونکہ سجدہ اگر صرف پیشانی کا ہو،

تو وہ شاید زمین چھو لیتا ہے مگر دل نہیں۔

کمرے کے کونے میں ایک چھوٹا سا پلنگ تھا۔

ہلکا سا جھکا ہوا، چادریں بکھری ہوئی، اور سرہانے کے پاس ایک پرانا کھلونا ریچھ پڑا تھا۔ جس کی ایک آنکھ غائب تھی۔

یہ نبیل کا کمرہ تھا۔

چھوٹا، سادہ، اور گواہ۔

اس کی خاموشی، اس کی برداشت، اور اس کا وہ دل جسے کسی نے کبھی مکمل سنا نہیں۔

دیوار پر ایک فریم لٹک رہا تھا:

“إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا”

“بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے” (الشرح:6)

یہ آیت اس کی ماں نے لگائی تھی۔

وہ اکثر کہتی تھیں کہ

“نبیل کو یہ یاد کرا دینا کہ اللہ نے اس کے لیے آسانی کا وعدہ کیا ہے۔”

مگر کیا آسانی صرف وعدوں سے آتی ہے؟

یا تعلق سے؟

نبیل چھوٹا تھا، مگر دل بڑا رکھتا تھا۔

اس کے پیدائشی نقص نے اسے عام بچوں جیسا کبھی نہ بنایا۔ لیکن وہ جانتا تھا،

اس کے اندر وہ درد ہے جو بڑے بڑے سمجھ نہیں سکتے۔

جب زوہیب نئے کپڑے پہنتا تھا، نبیل پرانے کپڑے خوشی سے سنبھالتا تھا۔

جب زوہیب اسکول کے سرٹیفکیٹ لا کر سب کو دکھاتا،

نبیل ماں کے گلے لگ کر کہتا کہ

“امی! میں نے سورہ فاتحہ یاد کی ہے۔”

اور ماں وہ آنکھیں بند کر کے کہتیں  “میرے بیٹے کو جنت مبارک ہو۔”

زوہیب اس وقت کامیابی کی سیڑھی پر چڑھ رہا تھا۔

آن لائن کلاسز، ویڈیوز، تقریریں، شہرت۔

ایک عوامی چہرہ مثالی مسلمان، موٹیویشنل نوجوان۔

لیکن گھر میں وہ بس زوہیب تھا۔

ایک ایسا بھائی جو اکثر دروازہ بند کر کے نبیل کو خاموشی سے نظرانداز کرتا۔

نبیل روز اس کے دروازے کے باہر آتا، تھوڑے فاصلے سے آواز دیتا اور کہتا۔

“بھائی، میری آواز آپ کی ویڈیو میں آ رہی ہے کیا؟”

“بھائی، آپ نے دعا مانگی میرے لیے؟”

زوہیب جواب میں اکثر ایک “ہُوں” کہہ کر دروازہ بند کر دیتا۔

کبھی کبھی نرمی سے ٹال دیتا۔

“بعد میں بات کرتے ہیں نبیل، ابھی مصروف ہوں۔”

کبھی یہ کملہ کہہ کر ٹال دیتا۔

نبیل چلا جاتا تھا۔ لیکن اس کے قدموں کے پیچھے خاموشی کا ایک طویل سناٹا رہ جاتا تھا۔

ایک رات،  بارش بہت تیز ہو رہی تھی، نبیل زوہیب کے کمرے میں آیا، ہلکی کانپتی آواز میں اس نے زوہیب کو پکارا۔

“بھائی مجھے ڈر لگ رہا ہے، بارش بہت زور کی ہے، کیا میں آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟”

زوہیب اس وقت کسی لائیو سیشن کی تیاری کر رہا تھا۔

“نبیل، یہ کیمرہ چل رہا ہے، میری امیج خراب ہو جائے گی۔ تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ چلے جاؤ۔” اس نے ناراضگی سے کہا۔

نبیل نے کچھ نہ کہا۔

بس ایک لمحہ اسے دیکھا۔ جیسے کوئی بند دروازہ دیکھے۔ جس پر کبھی دستک بھی بے معنی ہو جائے۔

وہ پلٹ گیا تھا۔

زوہیب کی ماں سب جانتی تھیں۔

اکثر وہ کچھ نہ کہتیں، مگر جب کبھی زوہیب کی آنکھیں ان کی آنکھوں سے ملتیں، تو کچھ سننے کو ملتا جیسے آئینہ بات کر رہا ہو۔

وہ اپنی یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ زوہیب کی ماں نے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ اندر جھانکا۔ اور پھر وہ زوہیب کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔

“بیٹا دنیا کی ویڈیوز، باتیں، تسبیح سب بعد میں کام آئیں گی۔ پہلا سوال وہی کرے گا جو تیرا رب ہے 

اور وہ پوچھے گا کہ جس بھائی کو میں نے آزمائش میں دیا تھا کیا تُو نے اسے سینے سے لگایا تھا؟”

زوہیب بس انہیں دیکھ کر رہ گیا۔

“ایک دن وقت نکالوں گا نبیل کے لیے۔

ایک دن اسے گلے بھی لگا لوں گا۔

ابھی نہیں بعد میں۔” وہ اکثر دل میں یہ بات سوچتا تھا مگر کبھی اس بات کو عمل میں نا لایا کرتا۔

وہ کہہ کر اپنی یونیورسٹی چلا گیا۔

مگر ‘بعد’ ہمیشہ دیر کر دیتا ہے۔

“بھائی، اگر آپ کو جنت مل گئی۔ اور مجھے اللہ نے ویسا ہی رکھا جیسا میں ہوں تو آپ مجھے ساتھ لے جائیں گے؟” نبیل نے آہستہ سے پوچھا۔

زوہیب ہنس پڑا، جیسے سوال مزاحیہ ہو۔

“اگر تم سمجھدار بن گئے تو شاید۔” زوہیب نے سادگی سے جواب دیا۔

نبیل مسکرا گیا۔

لیکن اس دن کے بعد اس نے کبھی سوال نہیں کیا۔

نبیل کی واحد دنیا اس کا رب تھا۔

وہ روز رات کو سونے سے پہلے ہاتھ اٹھاتا، اپنے انداز میں کہتا۔

“اللہ بھائی کو خوش رکھنا۔ اور اگر وہ مجھے ساتھ رکھنا نہیں چاہتا تو میں یہاں بھی ٹھیک ہوں بس آپ ساتھ رہنا۔

زوہیب اس دوران اپنی شہرت میں مگن رہا۔

نئے کورسز، ہزاروں فالورز، علماء کے ساتھ ملاقاتیں۔

اور نبیل ایک دن خاموش ہو گیا۔

بالکل خاموش۔

گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی۔

مگر نیند کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔

زوہیب آج ایک نئی ویڈیو ریکارڈ کر رہا تھا۔

“دوستو! زندگی تب تک بیکار ہے، جب تک آپ کسی کے درد کو محسوس نہ کریں۔”

پس منظر میں ہلکی تلاوت، سفید لباس، آہستہ لہجہ 

زوہیب عزیر لاکھوں کا روحانی راہنما۔

مگر آج کی ویڈیو کے دوران اچانک دل دھڑکنا بھول گیا۔

دروازے کے باہر سے آتی، اسے نبیل کی کانپتی آواز سنائی دی۔

“بھائی اگر میں مر جاؤں تو کیا آپ میری نماز جنازہ پڑھائیں گے؟”

زوہیب کا جسم منجمد ہو گیا۔

پلٹ کر دروازہ کھولا باہر کوئی نہ تھا۔

صرف ایک سایہ سا دیوار پر لرزتا دکھائی دیا

اور پھر نیچے سے زوہیب کی ماں کی چیخ۔

“زوہیب! بیٹا، جلدی آؤ نبیل نے کچھ کھا لیا ہے!!”

سفید دیواریں، نیلے پردے، اور ایک بستر جس پر نبیل بےہوش پڑا تھا۔

چہرہ زرد، سانسیں بےترتیب، اور ہاتھ میں زندگی کی آخری امید۔

جو دھیرے دھیرے کھسک رہی تھی۔

زوہیب کی ماں نے قرآن ہاتھ میں لیا، اور سجدے میں گر گئیں۔

“یا اللّٰہ میری ماں ہونے کی ساری غلطیاں معاف کر دے۔ اسے بچا لے۔ میرے نبیل کو بچا لے۔”

“دماغ پر دباؤ تھا۔ اس نے گولیاں کھائی ہیں

جسم مزاحمت کر رہا ہے، لیکن اگر اگلے 6 گھنٹے میں ہوش نہ آیا تو…”

ڈاکٹر نے نیبل کا معائنہ کیا۔ اور پھر سامنے کھڑے زوہیب اور اس کی ماں کو نبیل کے بارے میں بتایا۔

زوہیب کی ماں نے کچھ نہ سنا۔

زوہیب نے سب کچھ سن لیا۔ لیکن سمجھ پہلی بار آیا۔

نبیل کے بستر کے پاس ایک چھوٹا سا کاغذ ملا۔

تین بار تہہ کیا گیا، جیسے کسی بچے نے راز چھپایا ہو۔

زوہیب نے کانپتے ہاتھوں سے اسے کھولا۔

“بھائی مجھے پتہ ہے میں آپ کی کسی ویڈیو کے قابل نہیں۔ نہ آپ کی تقریر کے، نہ آپ کے سائے کے۔

بس میں اللّٰہ کے نزدیک ٹھیک ہوں نا؟

یہی سوچ کر جا رہا ہوں۔”

زوہیب کے ہاتھوں سے پرچی گر گئی۔

دل کسی چھت سے زمین پر آ گرا۔

اسپتال کی انتظار گاہ میں ایک قرآن رکھا تھا۔

غلاف میں لپٹا، گرد میں چھپا، جیسے خود زخموں سے بےخبر ہو۔

زوہیب نے اسے اٹھایا، پہلی بار دل کی سچائی سے۔

صفحات الٹے اور ایک آیت آنکھوں سے جا لگی۔

“يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفۡعَلُونَ”

“اے ایمان والو! وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟”

(الصف: 2)

زوہیب کے آنسو تڑاخ سے قرآن کے ورق پر گرے۔

ساری تقریریں، پوسٹس، ویڈیوز، صدقے، لائکس

سب جھوٹ لگے۔

“میں نیکی کا نقاب پہن کر، اپنے ہی بھائی کو جہنم میں دھکیل آیا۔”

 نبیل کے بارے میں سوچ کر ہی اس کی روح کانپ اٹھی۔

زوہیب نے اسپتال کے فرش پر سجدہ کیا۔

مگر اس کی زبان بول نہ سکی۔

کیونکہ سجدے الفاظ سے نہیں، دل سے کیے جاتے ہیں۔

“یا اللّٰہ تُو مجھے معاف کر دے، میں تجھ سے جھوٹ بولتا رہا ہوں دوسروں کو تیرا قُرب سکھاتا رہا مگر اپنے سب سے قریب انسان کو خود سے دور کرتا گیا۔”

اگلے چھ گھنٹے لمحوں کی شکل میں کٹتے گئے۔

زوہیب کی ماں قرآن تھامے بیٹھی تھیں، زوہیب خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وقت جیسے تھم گیا تھا۔

اور پھر ایک سانس، ایک جنبش،

نبیل کی انگلی نے حرکت کی۔

زوہیب نے نوٹ کیا تھا۔ اس نے فورا سے ڈاکٹر کو بلایا۔

ڈاکٹر کی بھاگ دوڑ، دلوں کی دعا،

اور اللّٰہ کا رحم۔

نبیل بچ گیا تھا۔

زوہیب اب ٹوٹ چکا تھا۔

اب وہ موٹیویشنل اسپیکر نہیں تھا۔

بس ایک گناہ گار بھائی تھا، جس کا سجدہ اب پہلا تھا، وہ بھی دل سے۔

“خدا سے پہلی بار شرمندگی”

زوہیب اب واپس نہیں گیا۔

اسٹیج پر نہیں، انسٹاگرام پر نہیں۔

بلکہ نبیل کے ساتھ، نبیل کے برابر، ایک نئی زندگی شروع کی ایک مسلمان کی طرح۔

اسپتال سے واپسی کے وقت زوہیب کے چہرے پر کوئی نور نہ تھا، نہ ہی شہرت کی وہ چمک، بس خاموشی کا ایک پردہ تھا۔

جو اس کے ضمیر کی چیخوں کو چھپا رہا تھا۔

نبیل کے لیے وہیل چیئر لائی گئی، زوہیب نے پہلی بار خود اس کا ہاتھ تھاما۔

نبیل نے چونک کر چہرہ دیکھا، جیسے اسے یقین نہ آیا ہو۔

“بھائی آپ میرے ساتھ چل رہے ہیں؟”

“ہاں اب ہمیشہ۔” زوہیب نے مسکرا کر فقط اتنا کہا۔

گھر کا دروازہ جیسے ان کے لیے نیا ہو گیا تھا۔

وہی کمرے، وہی تصاویر، لیکن زوہیب کی آنکھیں اب سب کچھ مختلف دیکھ رہی تھیں۔

جس کھلونے کو وہ “فضول” سمجھتا تھا، اب نبیل کی یاد کا آئینہ لگا۔

جس پرانی دعائیہ کتاب کو وہ نظرانداز کرتا تھا،

اب اس میں دل کے زخموں کا مرہم دکھائی دینے لگا۔

وہ اس کتاب کے آخری صفحے پر نبیل کی لکھی ہوئی ایک دعا پڑھ رہا تھا۔

“یا اللہ! میرا بھائی بہت اچھا ہے، بس اسے آپ کی محبت کی خوشبو محسوس نہیں ہو رہی۔ اُس پر اپنی مہربانی ڈال دینا، تاکہ وہ مجھے تھام لے۔”

زوہیب نے کتاب کو بند نہیں کیا، اسے سینے سے لگا کر وہ بہت دیر تک رویا۔

اگلے دن زوہیب نے انسٹاگرام، فیس بک، یوٹیوب سب بند کر دیا۔

مداحوں نے اس کے لیے پیغامات بھیجے۔

“سر! نئی ویڈیو کب آ رہی ہے؟”

“زوہیب بھائی! ہماری روحانی روشنی کہاں گئی؟”

زوہیب صرف خاموش رہا۔

اب وہ شہرت کے جواب نہیں دیتا تھا۔

بس نبیل کے سوالوں کے جواب ڈھونڈتا تھا۔

ایک دوپہر، زوہیب اپنی ماں کے پاس آیا، ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

“امی آپ کا وہ بیٹا، جسے آپ نے جنت کہا تھا۔ میں نے اسے روز جہنم کا احساس دلایا۔ کیا اللہ مجھے معاف کرے گا؟” وہ سر جھکا کر بولا۔

زوہیب کی ماں نے اس کا چہرہ تھاما، اس کے آنسو صاف کیے۔ اور پھر بولی۔

“بیٹا جب بیٹے خود کو پہچان لیں، تو مائیں سجدے میں شکر ادا کرتی ہیں جا، اس بھائی کو وہ سب دے دے جو تُو نے اس سے چھین لیا تھا۔ عزت، وقت، اور محبت۔” انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی تھی 

زوہیب اب نبیل کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔

اسے پارک لے جاتا، تصویریں لیتا، لیکن ان تصاویروں کو پوسٹ نہ کرتا۔

“بھائی پہلے آپ کی ہر بات سب کو دکھاتے تھے،

اب میرے ساتھ کی چیزیں کیوں نہیں؟” نبیل نے حیرانی سے پوچھا۔

“کیونکہ یہ میرے اور تیرے رب کے درمیان ہے

اب جو کروں گا، وہ صرف اللہ کے لیے ہوگا۔” 

زوہیب نے محبت سے کہا۔

زوہیب روز قرآن کھولتا۔ لیکن تلاوت نہیں، ترجمہ پڑھتا۔

ایک دن اسے ایک آیت ملی جو جیسے اس کے لیے اتری ہو۔

“إِلَّا مَنۡ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلۡبٖ سَلِيمٖ”

“سوائے اس کے جو اللہ کے پاس سلامت دل لے کر آیا ہو”

(الشعراء: 89)

“میں شاید حافظ نہ بن سکوں، مگر اب دل سے تسلیم ضرور کرنا ہے  کیونکہ یہی اصل اسلام ہے۔”

رات کے وقت زوہیب اور نبیل ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے۔

نبیل سادہ الفاظ میں دعا کرتا تھا۔

“اللہ بھائی کو خوش رکھنا۔ اور مجھے اس کے ساتھ رکھنا۔ دنیا میں بھی، جنت میں بھی۔”

زوہیب دیر تک سجدے میں پڑا رہتا۔

کچھ کہے بغیر صرف روتے ہوئے۔

کیونکہ جب انسان شرمندہ ہوتا ہے۔ تو الفاظ چھپ جاتے ہیں، اور دل بولنے لگتا ہے۔

نبیل آج کافی بہتر تھا۔

وہیل چیئر میں بیٹھے بیٹھے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ-

قرآن کے الفاظ دہرا رہا تھا۔

“بھائی، آپ مجھے ایک دن اپنی ویڈیو میں بٹھائیں گے؟ بس ایک بار، تاکہ لوگ جانیں کہ میں بھی ہوں” آج اس نے پہلی بار زوہیب سے کہا۔

زوہیب کچھ دیر خاموش رہا۔

پھر وہ سر جھکا کر بولا۔

“نہیں نبیل اب میری کوئی ویڈیو نہیں ہوگی لیکن اگر میں پھر کبھی بولوں تو صرف تیرے بارے میں بولوں گا۔”

نبیل نے آنکھیں بند کر لیں۔

جیسے دعا قبول ہو گئی ہو۔

اس دن زوہیب نے صرف ایک تصویر کھینچی۔

جس میں وہ اور نبیل ساتھ بیٹھے تھے، ایک ہی جائے نماز پر۔

اس تصویر کو کہیں پوسٹ نہیں کیا گیا۔

بس ماں کی قبر پر رکھ دی گئی۔

زوہیب نے قبر کے پاس بیٹھ کر کہا۔

“امی آپ کا جنتی بیٹا بچ گیا۔ اور آپ کا گناہ گار بیٹا۔ پہلی بار مسلمان بننے جا رہا ہے۔”

ہفتہ بعد مسجد میں جمعہ کا خطبہ تھا۔

مولوی صاحب نے غیر حاضری کی وجہ سے

زوہیب کو کہا  “بیٹا، ایک بار کچھ کہہ دو آج کے نوجوان تمہیں سنتے ہیں۔”

زوہیب منبر پر چڑھا، نہ کوئی ریکارڈنگ، نہ لائٹ، نہ لائیو۔

بس وہ، مائیک، اور دل کی سچائی۔

اس نے کہنا شروع کیا۔

“السلام علیکم! میں زوہیب عزیر ہوں۔

شاید آپ نے مجھے آن لائن دیکھا ہو، سنا ہو، سراہا ہو۔ لیکن جو آپ نے دیکھا وہ میرا چہرہ تھا اور نا وہ میرا دل تھا۔ کیونکہ دل اب آیا ہے۔”

اس نے قرآن مجید کھولا اور صرف ایک آیت پڑھی۔

“قَدۡ أَفۡلَحَ مَن زَكَّىٰهَا”

“کامیاب وہی ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا”

(الشمس: 9)

پھر خاموش ہو کر سوال کیا۔

“کیا میں مسلمان ہوں؟

اگر ہاں تو کیا میرا بھائی نبیل۔ اس اسلام میں شامل تھا؟ اگر نہیں تو میں کون سا اسلام لے کر پھر رہا تھا؟”

مسجد میں خاموشی چھا گئی۔

جب وہ گھر آیا۔ تو نبیل کو آنے کمرے میں سویا ہوا پایا۔ پھر وہ بھی اپنے کمرے کی جانب چلا گایا۔ آج اس کی ماں مرے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ لیکن وہ نبیل کا خیال ایک ماں کی طرح ہی رکھ رہا تھا۔ زوہیب کی ماں ہارٹ اٹیک کی وجہ چل بسیں تھی۔

اس رات نبیل نے نیند سے پہلےزوہیب کے ہاتھ تھامے، اور معصوم لہجے میں اس سے گویا ہوا 

“بھائی اللّٰہ آپ کو بہت پسند کرے گا، کیونکہ اب آپ مجھے پسند کرتے ہیں۔”

“اور تُو مجھے؟” زوہیب نے کہا۔

“ہمیشہ۔ جنت میں بھی، اگر میں پہلے پہنچا

تو آپ کا نام دروازے پر لکھوا دوں گا۔” نبیل نے مسکرا کر کہا۔

رات گئے زوہیب سجدے میں گرا۔

دل تھام کر بولا۔

“اے رب! میں وہ زوہیب نہیں جو ویڈیوز میں تھا۔

میں وہ ہوں جو تیرے قدموں میں پڑا ہے۔

مجھے مسلمان بنا لے۔ جو دل سے مانے،

اور عمل سے دکھائے۔ بس قبول کر لے، اے اللّٰہ

اور مجھے میرے نبیل کے ساتھ رکھ۔”

اختتام:

کیا میں مسلمان ہوں؟

یہ سوال زوہیب سے تھا۔

اب ہم سب سے ہے۔

کیونکہ مسلمان وہ نہیں

جو کہے، دکھائے، یا فالو ہو

بلکہ وہ جو نبیل جیسا ہو۔

خاموش، سچا، اور سب سے بڑھ کر اللّٰہ کے قریب۔

 (تمت بالخیر)

1 Comment

  1. Fatima Noor

    Just read it. It’s up to the mark . 🤌

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *